جدید تحقیق نے حاملہ خواتین کو ہونے والی متلی اور قے کا حل تلاش کر لیا

جدید تحقیق نے حاملہ خواتین کو ہونے والی متلی اور قے کا حل تلاش کر لیا

حمل کی پہلی سہ ماہی یا تین مہینوں میں خواتین میں یہ علامات ہونا عام سے بات سمجھی جاتی ہیں لیکن کچھ خواتین یہ علامات خطرناک صورت اختیار کر جاتی ہیں۔ جب ہائپر لیمسس گریویڈ پرم (ایچ جی) میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو اس سے حاملہ خواتین کو نہ صرف متلی اور قے مزید اس سے جسم کی کمی، کمزوری زہنی تناؤ وٹامن کی کمی اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا کرنا پڑ سکتا ہیں۔ جدید تحقیق نے یہ دریافت کیا ہے اس کی وجہ جی۔ ڈی۔ ایف 15 نامی ہارمون ہے۔ یہ ہارمون دماغ کے ایک چھوٹےحصے میں کام کرتا ہیں اور متلی اور قے کی تکلیف کی نشان دہی کرتا ہیں۔ حاملہ خواتین جو جی ڈی ۔ ایف 15 کے لیے زیادہ حساس ہے وہ دن میں 50 بار قبلی اور کھے کا تجربہ کر سکتی ہیں۔ حاملہ ہونے سے پہلے جن خواتین میں قدرتی طور پر اس ہارمون کی سطح کم ہوتی ہیں وہ حمل کے پہلے تین ماہ کے دوران جی ڈی ایف 15 ہارمون کے بڑھنے سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان رکھتی ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حمل کے دوران بیمار ہونے اور جی کری۔ ایف 15 ہارمون کے تعلق کو اہم قرار دیا گیا ہے
تحقیق کے مطابق بچہ دانی سے پیدا ہونے والے ہارمون کی کم مقدار کی وجہ سے ماں کے بیمار ہونے کے امکانات کم ہو سکتے ہیں انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن اور رابیلی کا کہنا ہے کہ ماں اس ہارمون میں جتنی حساس ہوگی وہ اتنی ہی زیادہ بیمار ہوئی اُنھوں نے بتایا یہ جاننے سے ہمیں ایک اشارہ ملتا ہےکہ ہم اسے کیسے روک سکتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ 100 میں ایک یا کبھی نا کبھی ایک یا تین خواتین ایچ جی سے متاثر ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو جنین کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں بہت سی خواتین جو اس کا شکار ہوتی ہیں انہیں پانی کی کمی سے بچنے کے لیے فلیوئیڈز کی اشد ضرورت ہے۔ 35 سالہ سوزی ویرل کہتی ہیں کہ ان کے حمل کے دوران ایج جی سے متاثر ہونے کا ان کا تجربہ اتنا تکلیف دہ تھا کہ وہ اسقاط حمل پر غور کرنے پر مجبور ہوگئ ویرل نے بتایا کہ میں بغیر جھٹکے یا قے سانس نہیں لے سکتی تھی اور دونوں بچوں کی پیدائش سے قبل مجھے 5ماہ اپنے کمرے میں بند رہنا پڑا۔ جدید سرچ سے ہم اس کیفیت یا بیماری کو جی ڈی ایف 115 سے منسلک کیا لیکن اب تک ہم اس کے بارے میں بہت سے چیزوں سے ناواقف ہیں۔
نیجر نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں کیمبرج یونیورسٹی سکاٹ لینڈ امریکہ اور سری لنکا کے سائنسدانوں نے حصہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ حمل کے دوران خاتون کی بیماری کا تعلق بچہ دانی میں بننے والے ہارمون سے ہے جتنے زیادہ ہارمون پیدا ہوں گے اتنی زیادہ بیماری کی علامات ظاہر ہوگی۔ تحقیق میں انہوں نے کیمبرج کے روزی میٹرنٹی ہسپتال میں خواتین کا مطالعہ کیا اور ور پایا کہ جن خواتین میں جنیاتی قسم ایچ جی کا خطرہ زیادہ ہوتا ان میں ہارمون کی سطح کم ہوتی ہیں جبکہ خون کی خرابی بیٹا تھیلسیمیا میں مبتلا جو خواتین حمل سے قبل جی۔ ڈی۔ ایف 15 کی بہت زیادہ سطح کا سبب بنتی ہیں ان میں ہارمون کی سطح کم ہوتی ہے انھیں بہت کم متلی یا قے کا سامنا کرنا پڑا۔

پروفیسر اورابیلی نے وضاحت کی کہ ہارمون کو ماں کے دماغ میں اس کے انتہائی مخصوص ریسیپٹر تک رسائی سے روکنا اس عارضے کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگا ڈاکٹر فریسہ و قارماہر گائنا کالوجسٹ کہتی ہیں اس مسلہ کیلئے دواؤں کی مدد کی جا سکتی ہیں تاہم ادرک کا استعمال بھی اِس میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

Previous post 8 Steps To Getting a Tech Job
Next post Red Cross Considers Gaza War an International Moral Failure

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *